EN हिंदी
ہزار گردش شام و سحر سے گزرے ہیں | شیح شیری
hazar gardish-e-sham-o-sahar se guzre hain

غزل

ہزار گردش شام و سحر سے گزرے ہیں

صوفی تبسم

;

ہزار گردش شام و سحر سے گزرے ہیں
وہ قافلے جو تری رہ گزر سے گزرے ہیں

ابھی ہوس کو میسر نہیں دلوں کا گداز
ابھی یہ لوگ مقام نظر سے گزرے ہیں

ہر ایک نقش پہ تھا تیرے نقش پا گماں
قدم قدم پہ تری رہ گزر سے گزرے ہیں

نہ جانے کون سی منزل پہ جا کے رک جائیں
نظر کے قافلے دیوار و در سے گزرے ہیں

رحیل شوق سے لرزاں تھا زندگی کا شعور
نہ جانے کس لیے ہم بے خبر سے گزرے ہیں

کچھ اور پھیل گئیں درد کی کٹھن راہیں
غم فراق کے مارے جدھر سے گزرے ہیں

جہاں سرور میسر تھا جام و مے کے بغیر
وہ مے کدے بھی ہماری نظر سے گزرے ہیں