ہزار بار وہ بیٹھا ہزار بار اٹھا
بچا نہ شہر میں کچھ بھی تو چوب دار اٹھا
ازل سے راہ نوردی جو تھی وہ اب بھی ہے
ابھی چھٹا تھا ابھی راہ میں غبار اٹھا
نفس کے تار کی گرہیں کہ کائنات کے خم
سراب دل میں تھا صحرا کے آر پار اٹھا
خموشیوں کے تکلم کو پوجنے والا
وہی تھا بزم میں آخر گناہ گار اٹھا
وہ ساتھ تھا تو مقدس تھے میرے سارے حروف
بچھڑ گیا ہے تو لفظوں کا اعتبار اٹھا

غزل
ہزار بار وہ بیٹھا ہزار بار اٹھا
اقتدار جاوید