حیات راس نہ آئے اجل بہانہ کرے
ترے بغیر بھی جینا پڑے خدا نہ کرے
میں روز مرتا ہوں اس انتظار کے صدقے
برا نہ مان اگر زندگی وفا نہ کرے
ہم ایک ہو گئے دو دن میں کس طرح اللہ
یہی دعا ہے کوئی تیسرا جدا نہ کرے
منایا جشن شب غم کہ ایک دن تو کٹا
جو تجھ سے چھوٹ کے جیتا رہے وہ کیا نہ کرے
میں اپنی روشنئ طبع سے لرزتا ہوں
مرا جنوں مجھے منزل سے آشنا نہ کرے
میں کیا بتاؤں کہ قربت کا فاصلہ کیا ہے
کہ جیسے گھر تو بنائے کوئی رہا نہ کرے
غزل
حیات راس نہ آئے اجل بہانہ کرے
شاذ تمکنت