EN हिंदी
حیات و موت کے پردے گرا کے | شیح شیری
hayat-o-maut ke parde gira ke

غزل

حیات و موت کے پردے گرا کے

مسعود میکش مراد آبادی

;

حیات و موت کے پردے گرا کے
تمہیں دیکھا ہے تم سے بھی چھپا کے

مجھے تڑپا رہے ہیں یاد آ کے
وہ لمحات حسیں عہد وفا کے

وہاں دامن کو الجھائے ہوئے ہوں
گزرنا تھا جہاں دامن بچا کے

مری خودداریوں کی لاج رکھ لی
میں صدقے اس دل بے مدعا کے

تری محفل میں خالی ہاتھ آئے
کسی امید پر سب کچھ لٹا کے

خیالوں میں ترے آنچل کو دیکھا
ستارے جب بھی چٹکے مسکرا کے

خبر بھی ہے تجھے اے جان میکشؔ
فسانے بن گئے ہر ہر ادا کے