حیات و موت کا اک سلسلا ہے
محبت انتہا تک ابتدا ہے
میں کیا جانوں کہ باب توبہ کیا ہے
ابھی تو میکدے کا در کھلا ہے
ذرا پھر دل پہ نظریں ڈال دیجے
چراغ آرزو خاموش سا ہے
عطا کر دی تمہاری آرزو نے
وہ اک دنیا جو دنیا سے جدا ہے
حسیں ہوں لاکھ دنیا کے مناظر
وہ کیا دیکھے جو تم کو دیکھتا ہے
نظر کے ساتھ نظارہ بھی گم ہے
دل مضطر یہ کس کا سامنا ہے
مرے دل کو نہ رکھ بے رنگ ساقی
کہ ہر ساغر گلابی ہو رہا ہے
نہ دوزخ ہے نہ جنت ہے تو باسطؔ
مرے اعمال غم کا کیا صلا ہے

غزل
حیات و موت کا اک سلسلا ہے
باسط بھوپالی