حیات و مرگ کا عقدہ کشا ہونے نہیں دیتا
وہ جانے کیوں مجھے راز آشنا ہونے نہیں دیتا
اسے کس درجہ اپنے حسن یکتائی کی چاہت ہے
وہ اپنا سا کوئی بھی دوسرا ہونے نہیں دیتا
خرد بھٹکائے ہے اکثر دلائل سے عقیدت کو
مگر گمراہ تیرا نقش پا ہونے نہیں دیتا
جو چھو لوں آسماں پاؤں کی دھرتی کھینچ لیتا ہے
وہ مجھ کو کیوں مرے قد سے بڑا ہونے نہیں دیتا
جواں لاشے پہ ہیں شکوہ بہ لب کاندھے ضعیفی کے
اگر وہ چاہتا یہ حادثہ ہونے نہیں دیتا

غزل
حیات و مرگ کا عقدہ کشا ہونے نہیں دیتا
رام اوتار گپتا مضظر