حیات میں بھی اجل کا سماں دکھائی دے
وہی زمین وہی آسماں دکھائی دے
قدم زمیں سے جدا ہیں نظر مناظر سے
غریب شہر کو شہر آسماں دکھائی دے
تمام شہر میں بے چہرگی کا عالم ہے
جسے بھی دیکھیے گرد اور دھواں دکھائی دے
اک ایک شخص ہجوم رواں میں تنہا ہے
اک ایک شخص ہجوم رواں دکھائی دے
کبھی سنو تو مکینوں کا گریۂ سحری
لہولہان سا ایک اک مکاں دکھائی دے
مکیں ہوں میں کہ مسافر یہ دشت ہے کہ دیار
قیام میں بھی سفر کا سماں دکھائی دے
درون دل ہو کہ بیرون دل سفر اپنا
کہیں لحد کہیں خالی مکاں دکھائی دے
وہ دھوپ ہے کہ سلگتا ہے سایہ پاؤں تلے
خمیر خاک بھی آگ اور دھواں دکھائی دے
ہے جسم شعلہ ہی شعلہ تو جاں ہے پیاس ہی پیاس
اور اپنا سایہ سراب تپاں دکھائی دے
میں کس طرف کو بڑھوں آسمان ہے نہ زمیں
میں جس طرف بھی چلوں خوف جاں دکھائی دے
زمین ہے کہ فلک پاؤں کس جگہ ہیں ندیم!
مجھے بتا، مجھے سب کچھ دھواں دکھائی دے
سب اپنے درد کے دوزخ میں جل رہے ہیں شہابؔ
مگر زمیں ہمیں جنت نشاں دکھائی دے
غزل
حیات میں بھی اجل کا سماں دکھائی دے
شہاب جعفری