حیات انساں کی سر تا پا زباں معلوم ہوتی ہے
یہ دنیا انقلاب آسماں معلوم ہوتی ہے
مکدر ہے خزاں کے خون سے عیش بہار گل
خزاں کی رت بہار بے خزاں معلوم ہوتی ہے
مجھے ناکامی پیہم سے مایوسی نہیں ہوتی
ابھی امید میری نوجواں معلوم ہوتی ہے
کوئی جب نالہ کرتا ہے کلیجہ تھام لیتا ہوں
فغان غیر بھی اپنی فغاں معلوم ہوتی ہے
مآل درد و غم دیکھو صدائے ساز عشرت بھی
اتر جاتی ہے جب دل میں فغاں معلوم ہوتی ہے
چمن میں عندلیب زار کی فریاد اے اخترؔ
دل ناداں کو اپنی داستاں معلوم ہوتی ہے
غزل
حیات انساں کی سر تا پا زباں معلوم ہوتی ہے
اختر انصاری