حیات اک ساز بے صدا تھی سرود عمر رواں سے پہلے
بشر کی تقدیر سو رہی تھی خطائے باغ جناں سے پہلے
نظر نے کی نذر روح و دل پیش لب پہ شور فغاں سے پہلے
ادا ہوا سجدۂ محبت خروش بانگ اذاں سے پہلے
بدل گیا عشق کا زمانہ کہاں سے پہنچا کہاں فسانہ
انہیں بھی مجھ پر زبان آئی وہی جو تھے بے زباں سے پہلے
کسے خبر تھی کہ بن کے برق غضب گرے گا یہی چمن پر
وہ حسن جو مسکرا رہا تھا نقاب ابر رواں سے پہلے
ستم تو شاید میں بھول جاتا اگر یہ نشتر چبھا نہ ہوتا
وہ اک نگاہ کرم جو کی تھی نگاہ نا مہرباں سے پہلے
نظر ہے ویراں مری تو کیا غم نظر کے جلوے تو ہیں سلامت
نہ تھے تم اتنے حسیں مری محبت رائیگاں سے پہلے
تری طرف پھر نظر کروں گا نشاط ہستیٔ جاودانی
خرید لوں لذت الم کچھ متاع عمر رواں سے پہلے
بچھڑ گئے راہ زیست میں ہم تمہیں بھی اس کا اگر ہے کچھ غم
چلیں وہیں سے پھر آؤ باہم چلے تھے ہم تم جہاں سے پہلے
قفس کی لوہے کی تیلیاں اب انہیں کی ضربوں سے خونچکاں ہیں
یہی جو تھے منتشر سے تنکے تصور آشیاں سے پہلے
چمن میں ہنسنے سے پھر نہ روکوں گا غنچۂ سادہ لوح تجھ کو
مگر ذرا آشنا تو ہو جا طبیعت باغباں سے پہلے
نظر کے شعلے دلوں میں اک آگ ہر دو جانب لگا چکے ہیں
بس اب تو یہ رہ گیا ہے باقی کہ لو اٹھے گی کہاں سے پہلے
نہ ڈھونڈو ملاؔ کو کارواں میں پھرے گا صحرا میں وہ اکیلا
کسی سبب سے جو تا بہ منزل نہ آ سکا کارواں سے پہلے
غزل
حیات اک ساز بے صدا تھی سرود عمر رواں سے پہلے
آنند نرائن ملا