EN हिंदी
حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں | شیح شیری
hayat DhunDh raha hun qaza ki rahon mein

غزل

حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں

بدنام نظر

;

حیات ڈھونڈ رہا ہوں قضا کی راہوں میں
پناہ مانگنے آیا ہوں بے پناہوں میں

بدن ممی تھا نظر برف سانس کافوری
تمام رات گزاری ہے سرد بانہوں میں

اب ان میں شعلے جہنم کے رقص کرتے ہیں
بسے تھے کتنے ہی فردوس جن نگاہوں میں

بجھی جو رات تو اپنی گلی کی یاد آئی
الجھ گیا تھا میں رنگین شاہراہوں میں

نہ جانے کیا ہوا اپنا بھی اب نہیں ہے وہ
جو ایک عمر تھا دنیا کے خیر خواہوں میں

مری تلاش کو جس علم سے قرار آئے
نہ خانقاہوں میں پائی نہ درس گاہوں میں