EN हिंदी
حیات دوڑتی ہے عمر بھر قضا کی طرف | شیح شیری
hayat dauDti hai umr bhar qaza ki taraf

غزل

حیات دوڑتی ہے عمر بھر قضا کی طرف

جاوید جمیل

;

حیات دوڑتی ہے عمر بھر قضا کی طرف
جزائے خیر کی جانب کہ پھر سزا کی طرف

مقام فکر ہے یہ سمت فکر ٹھیک نہیں
سفر ہے تیز مگر ہے کہاں خدا کی طرف

رہے میانہ روی ہے یہی طریقۂ عدل
جھکیں نہ صفر کی جانب نہ انتہا کی طرف

نہ جانے کیسا ہے یہ ارتقا زمانے کا
کہ لوٹ لوٹ کے جاتا ہے ابتدا کی طرف

یہ کیسی جا ہے جہاں ہے ہوا بھی مصنوعی
نکل کے بھاگ چلو قدرتی فضا کی طرف

مرض شفا کی تڑپ میں قدم اٹھاتا ہے
کبھی دوا کی طرف اور کبھی دعا کی طرف

پکارنا ہے ترا کام کام کر جاویدؔ
پلٹ کے آئے گی دنیا تری صدا کی طرف