ہوس کسی کو ہو دیکھنے کی جو موج بے انتہائے دریا
تو آ کے چشموں کو دیکھے میری کہ یاں سے ہے ابتدائے دریا
حباب ان کو نہ سمجھو یارو یہ اٹھتے پانی میں ہیں جو ہر دم
بدن کھلا جو کسی کا دیکھا کھلے ہیں یہ دیدہ ہائے دریا
دورن گرداب اب جو جا کر پھنسی ہے کشتی ہماری یا رب
سرکش یاس اب بھی ہے جو آنکھوں سے کیا کہیں ماجرائے دریا
سرشک چشم اور آہ سوزاں نے میرے اے وائے ایک پل میں
بہت سے جنگل کیے ہیں سرسبز اور کتنے سکھائے دریا
اٹھائے گا جب تلک نہ نصرتؔ تو ورطۂ عشق کی مشقت
تو ہاتھ آوے گا کیوں کہ تیرے وہ گوہر بے بہائے دریا

غزل
ہوس کسی کو ہو دیکھنے کی جو موج بے انتہائے دریا
نصرت لکھنوی