EN हिंदी
ہوس کیجے نہ عمر جاوداں کی | شیح شیری
hawas kije na umr-e-jawedan ki

غزل

ہوس کیجے نہ عمر جاوداں کی

عاشق اکبرآبادی

;

ہوس کیجے نہ عمر جاوداں کی
ہے عمر خضر بھی ایسی کہاں کی

کسے خواہش ہے عمر جاوداں کی
کہاں تک ٹھوکریں کھائیں یہاں کی

اڑا کر خاک وحشی نے تمہارے
بنائے تازہ ڈالی آسماں کی

بہت دور فلک نے رنگ بدلے
نہ خو بدلی مگر اس بد گماں کی

خریدارو چلو سودا خریدو
سر بازار عاشقؔ نے دکاں کی