ہوس کی آگ بجھی دل کی تشنگی ہے وہی
سکون جاں سے تہی میری زندگی ہے وہی
دل فسردہ میں احساس ہی نہیں باقی
جہان کہنہ میں ورنہ شگفتگی ہے وہی
جمال اور جنوں ہو چکے زمانہ شناس
نیاز و ناز میں کہنے کو سادگی ہے وہی
کوئی قصور تو ثابت نہ ہو سکا لیکن
جو بد گماں تھے انہیں مجھ سے برہمی ہے وہی
وہ ہر قدم کے اثر سے ہے با خبر پھر بھی
رہ حیات میں انساں کی کج روی ہے وہی

غزل
ہوس کی آگ بجھی دل کی تشنگی ہے وہی
نظیر صدیقی