ہوس کے بیج بدن جب سے دل میں بونے لگا
میں خود سے ملنے کے سارے جواز کھونے لگا
رفیق صبح تھا سورج سے رشتہ داری تھی
سپاہ شب میں یہ کس کا شمار ہونے لگا
عجیب منظر آخر تھا بجھتی آنکھوں میں
وہ مجھ کو مار کے بے اختیار رونے لگا
اس احتیاط کی سرحد سزا سے ملتی ہے
لہو کا نام لیا آستین دھونے لگا
پھر اس کے بعد یہ ساری زمین میری تھی
جگا کے جب سے مجھے یہ ضمیر سونے لگا
غزل
ہوس کے بیج بدن جب سے دل میں بونے لگا
شعیب نظام