ہواؤں سے الجھے شجر رات بھر
لرزتا رہا میرا گھر رات بھر
ضرور اس میں ماضی کے آسیب ہیں
سسکتا بہت ہے کھنڈر رات بھر
میں گرتا ہوں بستر پہ جب ٹوٹ کر
اداسی دباتی ہے سر رات بھر
بلا اب مرے شہر میں آئے گی
کہ روتا ہے اک جانور رات بھر
اسے بھی مرا خوف ڈستا رہا
مجھے بھی رہا اس کا ڈر رات بھر
غزل
ہواؤں سے الجھے شجر رات بھر
منیر سیفی