ہواؤں کا جو شہ پر بولتا ہے
ہمارے گھر کا چھپر بولتا ہے
وہی منظر بہ منظر بولتا ہے
غزل چہرہ بدن بھر بولتا ہے
فلک صحرا سمندر بولتا ہے
طلسم خواب شب بھر بولتا ہے
کئی فاقوں کا مظہر بولتا ہے
شکم پرور جو پتھر بولتا ہے
خموشی اوڑھ لیتا ہے فلک بھر
کبھی وہ شخص اکثر بولتا ہے
کبھی کرتے ہیں سجدے چاند تارے
کبھی مٹھی میں کنکر بولتا ہے
پگھلتی جا رہی ہے برف ساری
تباہی کا سمندر بولتا ہے
میں اپنے آپ سے کرتا ہوں باتیں
کہ خود مجھ سے مرا گھر بولتا ہے
پہن لیتا ہے وہ جو کچھ بھی سیفیؔ
بہت اس کے بدن پر بولتا ہے
غزل
ہواؤں کا جو شہ پر بولتا ہے
منیر سیفی