ہوائیں چاندنی میں کانپتی ہیں
مرا مہتاب دکھ پہچانتی ہیں
اتر سکتی نہیں حسن بیاں میں
جو راتیں حرف جاں کو کاٹتی ہیں
بھنور پائل مرے پیروں سے الجھی
تری یادوں کی لہریں ناچتی ہیں
مری آنکھوں میں ساحل تک نمی ہے
مگر نظریں کہ صحرا چھانتی ہیں
بدن میں چپ اندھیرا سو رہا ہے
امنگیں ایک تارا مانگتی ہیں
ہری یہ کشت جاں کیا ہو سکے گی
زمینیں تو نمو سے بھاگتی ہیں
غزل
ہوائیں چاندنی میں کانپتی ہیں
شاہدہ تبسم