حوادثات کے مارے صعوبتوں میں پلے
نگاہ گرم سے ترساں ہوں بجلیوں کے جلے
وہ بت کدہ تھا جہاں سر جھکے چراغ جلے
یہ مے کدہ ہے یہاں خم اٹھے شراب چلے
یہ رقص انجم و مہتاب یہ سماں یہ سکوں
یہ دور مے ابھی کچھ اور تھوڑی دیر چلے
جو اپنے آپ ہی میں کردہ راہ منزل تھے
رہ حیات میں کچھ ایسے رہنما بھی ملے
بساط انجم و مہ ہو کہ میکدے کا خروش
یہ بزم رنگ پہ آتی ہے اپنی رات ڈھلے
ضیا وہ دی ہے مرے داغہائے دل نے کہ بس
چراغ بزم تمنا نہ ایک رات جلے
جو اپنی قوم کی کشتی کہ خود ڈبو ڈالے
ہم ایسے راہبر قوم کے بغیر بھلے
اسی تضاد میں مضمر ہے زندگی کا فسوں
کہیں چراغ بجھے اور کہیں چراغ جلے
خدا بچائے بس اس میر کارواں سے جلیلؔ
جو کاٹ لیتا ہو خود اہل کارواں کے گلے

غزل
حوادثات کے مارے صعوبتوں میں پلے
جلیل شیر کوٹی