ہوا پہ چل رہا ہے چاند راہ وار کی طرح
قدم اٹھا رہی ہے رات اک سوار کی طرح
فصیل وادئ خیال سے اتر رہی ہے شب
کسی خموش اور اداس آبشار کی طرح
تڑپ رہا ہے بارشوں میں میرے جسم کا شجر
سیاہ ابر میں گھرے ہوئے چنار کی طرح
انہی اداسیوں کی کائنات میں کبھی تو میں
خزاں کو جیت لوں گی موسم بہار کی طرح
ترے خیال کے سفر میں تیرے ساتھ میں بھی ہوں
کہیں کہیں کسی غبار رہ گزار کی طرح
عبور کر سکی نہ فاصلوں کی گردشوں کو میں
بلند ہو گئی زمین کوہسار کی طرح
ترے دیئے کی روشنی کو ڈھونڈتا ہے شام سے
مرا مکاں کسی لٹے ہوئے دیار کی طرح

غزل
ہوا پہ چل رہا ہے چاند راہ وار کی طرح
شاہدہ حسن