ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں
شروع فصل گل ہے ان لبوں کو چوم کر دیکھوں
کہاں کس آئنے میں کون سا چہرہ دمکتا ہے
ذرا حیرت سرائے آب و گل میں گھوم کر دیکھوں
مرے سینے میں دل ہے یا کوئی شہزادۂ خود سر
کسی دن اس کو تاج و تخت سے محروم کر دیکھوں
گزر گاہیں جہاں پر ختم ہوتی ہیں وہاں کیا ہے
کوئی رہرو پلٹ کر آئے تو معلوم کر دیکھوں
بہت دن دشت و در میں خاک اڑاتے ہوئے ثروتؔ
اب اپنے صحن میں اپنی فضا میں جھوم کر دیکھوں
غزل
ہوا و ابر کو آسودۂ مفہوم کر دیکھوں
ثروت حسین