ہوا میں اڑتا کوئی خنجر جاتا ہے
سر اونچا کرتا ہوں تو سر جاتا ہے
دھوپ اتنی ہے بند ہوئی جاتی ہے آنکھ
اور پلک جھپکوں تو منظر جاتا ہے
اندر اندر کھوکھلے ہو جاتے ہیں گھر
جب دیواروں میں پانی بھر جاتا ہے
چھا جاتا ہے دشت و در پر شام ڈھلے
پھر دل میں سب سناٹا بھر جاتا ہے
زیبؔ یہاں پانی کی کوئی تھاہ نہیں
کتنی گہرائی میں پتھر جاتا ہے
غزل
ہوا میں اڑتا کوئی خنجر جاتا ہے
زیب غوری