ہوا کچھ اپنے سوال تحریر دیکھتی ہے
کہ بادلوں کو بھی مثل زنجیر دیکھتی ہے
مجھے بلاتا ہے پھر وہی شہر نا مرادی
کہ آرزو آبلوں میں تصویر دیکھتی ہے
جو کشتیوں میں نہ بیٹھ پائے وہ گھر نہ پہنچے
سفر کی تائید شام تقصیر دیکھتی ہے
بہت دنوں میں ستم کے دریا کا زور ٹوٹا
سرشت شب بھی برہنہ تعزیر دیکھتی ہے
سمندروں کا عروج پھر ریت بن گیا ہے
شہاب ثاقب میں رات تفسیر دیکھتی ہے
ہوا چلی تھی پہ شہر جاں کے تھے در مقفل
یہ آنکھ اپنے ہی خواب تاخیر دیکھتی ہے
سبو لیے تشنگی کھڑی تھی یہ جانتی تھی
کہ جاں فروشوں کو قوس شمشیر دیکھتی ہے
نیابت شہر ان کے ہاتھوں میں اب نہ ہوگی
کمان داروں کو شب کی زنجیر دیکھتی ہے

غزل
ہوا کچھ اپنے سوال تحریر دیکھتی ہے
کشور ناہید