ہوا کی ہلکی سی آہٹ پہ یوں مچل جانا
امید وصل پہ بسمل کا پھر سنبھل جانا
نہ آ رہے تھے نہ آنا تھا اور نہ امکاں تھا
یہ زعم دل تھا یا قسمت کا یوں بدل جانا
یہ دل پہ بوجھ ہے دردوں کا یا تری یادیں
یا آبلوں کا حرارت سے ہے پگھل جانا
تری تلاش میں اٹھ اٹھ کے پاگلوں کی طرح
شب فراق میں گھر سے کہیں نکل جانا
یہ جانتے ہیں کہ ممکن نہیں تو لوٹ آئے
شعار دل ہے تری یاد سے بہل جانا
تری امید کا جب سر سے اٹھ گیا آنچل
تو فصل گل میں تھا یکسر خزاں میں ڈھل جانا
ابھی تھی تیرے سفینے کی منتظر کوثرؔ
عجب لگا ترے ساحل سے یوں پھسل جانا

غزل
ہوا کی ہلکی سی آہٹ پہ یوں مچل جانا
ناہید کوثر