ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا
چراغ کو جو بچاتے تھے ان کا گھر بھی گیا
پکارتے رہے محفوظ کشتیوں والے
میں ڈوبتا ہوا دریا کے پار اتر بھی گیا
اب احتیاط کی دیوار کیا اٹھاتے ہو
جو چور دل میں چھپا تھا وہ کام کر بھی گیا
میں چپ رہا کہ اسی میں تھی عافیت جاں کی
کوئی تو میری طرح تھا جو دار پر بھی گیا
سلگتے سوچتے ویران موسموں کی طرح
کڑا تھا عہد جوانی مگر گزر بھی گیا
جسے بھلا نہ سکا اس کو یاد کیا رکھتا
جو نام لب پہ رہا ذہن سے اتر بھی گیا
پھٹی پھٹی ہوئی آنکھوں سے یوں نہ دیکھ مجھے
تجھے تلاش ہے جس شخص کی وہ مر بھی گیا
مگر فلک کو عداوت اسی کے گھر سے تھی
جہاں فرازؔ نہ تھا سیل غم ادھر بھی گیا
غزل
ہوا کے زور سے پندار بام و در بھی گیا
احمد فراز