ہوا کے ساتھ سفر اختیار کرنا تھا
دیار شب کو خموشی سے پار کرنا تھا
ہماری خاک کوئی چاندنی میں ڈال آئے
ہمارا کام ستارے شکار کرنا تھا
ہوئی تھی اس لیے تاخیر تم سے ملنے میں
خود اپنا بھی تو مجھے انتظار کرنا تھا
تمہارے واسطے کرنا تھا میں نے خود کو تلاش
تمہارے واسطے میں نے فرار کرنا تھا
ابھی سے تم نے مجھے بے کنار کر ڈالا
ابھی تو تم نے مجھے ہم کنار کرنا تھا
ہماری سمت بھی اک سکہ مسکراہٹ کا
ہمیں بھی اپنی رعایا شمار کرنا تھا
فلک تو بھول بھی سکتا تھا لغزشیں سیفیؔ
مگر زمیں نے بہت شرمسار کرنا تھا
غزل
ہوا کے ساتھ سفر اختیار کرنا تھا
منیر سیفی