ہوا کے پاس بس اک تازیانہ ہوتا ہے
اسی سے شہر و شجر کو ڈرانا ہوتا ہے
وہ ساری باتیں میں احباب ہی سے کہتا ہوں
مجھے حریف کو جو کچھ سنانا ہوتا ہے
منافقوں میں شب و روز بھی گزارتا ہوں
اور ان کی زد سے بھی خود کو بچانا ہوتا ہے
کتاب عمر بھری جا رہی ہے لیکن کیوں
نہ کوئی لفظ نہ چہرہ پرانا ہوتا ہے
وہاں بھی مجھ کو خدا سر بلند رکھتا ہے
جہاں سروں کو جھکائے زمانہ ہوتا ہے
غزل
ہوا کے پاس بس اک تازیانہ ہوتا ہے
اسعد بدایونی