ہوا کے لمس سے بھڑکا بھی ہوں میں
شرارہ ہی نہیں شعلہ بھی ہوں میں
وہ جن کی آنکھ کا تارہ بھی ہوں میں
ان ہی کے پاؤں کا چھالا بھی ہوں میں
اکہرا ہے مرا پیراہن ذات
برا ہوں یا بھلا جیسا بھی ہوں میں
ہوا نے چھین لی ہے میری خوشبو
مثال گل اگر مہکا بھی ہوں میں
مرے رستے میں حائل ہے جو دیوار
اسی کے سائے میں بیٹھا بھی ہوں میں
ترس جاتا ہوں جس کے دیکھنے کو
اسی اک شخص سے بچتا بھی ہوں میں
میں جن لوگوں کی صورت سے ہوں بے زار
انہی میں رات دن رہتا بھی ہوں میں
جو میری خوش لباسی کے ہیں قائل
ان ہی کے سامنے ننگا بھی ہوں میں
سراسر جھوٹ ہے جو بات میری
اسی اک بات میں سچا بھی ہوں میں
اگرچہ فطرتا کم گو ہوں پھر بھی
جو سچ پوچھو تو کچھ بنتا بھی ہوں میں
بہت اس شہر میں رسوا ہوں راشدؔ
مگر کیا واقعی ایسا بھی ہوں میں
غزل
ہوا کے لمس سے بھڑکا بھی ہوں میں
راشد مفتی