ہوا کے حوصلے زنجیر کرنا چاہتا ہے
وہ میری خواہشیں تصویر کرنا چاہتا ہے
نظر جس سے چرا کر میں گزرنا چاہتی ہوں
وہ موسم ہی مجھے تسخیر کرنا چاہتا ہے
وصال دید کو آنکھیں چھپانا چاہتی ہیں
مگر دل واقعہ تحریر کرنا چاہتا ہے
مزاج باد و باراں آشنا ہے شوق لیکن
نئے دیوار و در تعمیر کرنا چاہتا ہے
مرے سارے سوال اس کی نظر کے منتظر ہیں
وہ دانستہ مگر تاخیر کرنا چاہتا ہے

غزل
ہوا کے حوصلے زنجیر کرنا چاہتا ہے
شہناز نور