EN हिंदी
ہوا کے دوش پہ رقص سحاب جیسا تھا | شیح شیری
hawa ke dosh pe raqs-e-sahab jaisa tha

غزل

ہوا کے دوش پہ رقص سحاب جیسا تھا

شاذ تمکنت

;

ہوا کے دوش پہ رقص سحاب جیسا تھا
ترا وجود حقیقت میں خواب جیسا تھا

دم وداع سمندر بچھا رہا تھا کوئی
تمام شہر ہی چشم پر آب جیسا تھا

مری نگاہ میں رنگوں کی دھوپ چھاؤں سی تھی
ہجوم گل میں وہ کیا تھا گلاب جیسا تھا

ہماری پیاس نے وہ بھی نظارہ دیکھ لیا
رواں دواں کوئی دریا سراب جیسا تھا

جھکی نگاہ وہ کم کم سخن دم اقرار
وہ حرف حرف ترا انتخاب جیسا تھا

مجھے تو سیر جہاں سیر بازگشت ہوئی
ترا جہاں دل خانہ خراب جیسا تھا

شکستہ خوابوں کے ٹکڑوں کو جوڑتے تھے ہم
وہ دن عجیب تھا روز حساب جیسا تھا

ہمیں برتنے میں کچھ احتیاط لازم تھی
دلوں کا حال شکستہ کتاب جیسا تھا

میں شاذؔ کیا کہوں کیا روشنی تھی راہوں میں
وہ آفتاب نہ تھا آفتاب جیسا تھا