ہوا کا زور ہی کافی بہانہ ہوتا ہے
اگر چراغ کسی کو جلانا ہوتا ہے
زبانی دعوے بہت لوگ کرتے رہتے ہیں
جنوں کے کام کو کر کے دکھانا ہوتا ہے
ہمارے شہر میں یہ کون اجنبی آیا
کہ روز خواب سفر پہ روانہ ہوتا ہے
کہ تو بھی یاد نہیں آتا یہ تو ہونا تھا
گئے دنوں کو سبھی کو بھلانا ہوتا ہے
اسی امید پہ ہم آج تک بھٹکتے ہیں
ہر ایک شخص کا کوئی ٹھکانہ ہوتا ہے
ہمیں اک اور بھری بزم یاد آتی ہے
کسی کی بزم میں جب مسکرانا ہوتا ہے
غزل
ہوا کا زور ہی کافی بہانہ ہوتا ہے
شہریار