ہوا کا جھونکا بھی نظریں جما کے بیٹھ گیا
میں ریت پر ترا چہرہ بنا کے بیٹھ گیا
سراپا ناز وہ محفل میں آ کے بیٹھ گیا
نہ جانے کتنوں کے طوطے اڑا کے بیٹھ گیا
تھا انتظار مجھے جس کے لوٹ آنے کا
کسی کو اور وہ اپنا بنا کے بیٹھ گیا
بھٹک رہی تھی ہوا کاسۂ طلب لے کر
سو راستے میں دیا میں جلا کے بیٹھ گیا
وہ ایک بلبلہ جو سطح آب پر ابھرا
بساط میری وہ مجھ کو بتا کے بیٹھ گیا
کریدنے سے نہ باز آیا راکھ ماضی کی
وہ آخر انگلیاں اپنی جلا کے بیٹھ گیا
ملال و رشک ہے جیراجپوریؔ کو اس کا
نیازؔ سے بھی کوئی دل لگا کے بیٹھ گیا
غزل
ہوا کا جھونکا بھی نظریں جما کے بیٹھ گیا
نیاز جیراجپوری