ہوائے وادئ دشوار سے نہیں رکتا
مسافر اب ترے انکار سے نہیں رکتا
سفینہ چل جو پڑا ہے چڑھاؤ پر تو کبھی
مخالف آتی ہوئی دھار سے نہیں رکتا
مرا خیال ہے تدبیر کوئی اور ہی کر
ہجوم اب تری تلوار سے نہیں رکتا
ٹھہرنا چاہے تو ٹھہرے گا آپ ہی ورنہ
ہماری کوشش بسیار سے نہیں رکتا
اب اس کے ساتھ ہی بہہ جائیے کہ یہ سیلاب
خس و خمار کے انبار سے نہیں رکتا
رواں جو ہے سفر منزل صدا ہر چند
یہ قافلہ مرے معیار سے نہیں رکتا
یہ ایسے لوگ ہیں عادت پڑی ہوئی ہے جنہیں
یہ مال سردئ بازار سے نہیں رکتا
مسافرت میں جو ہارے نہ حوصلہ راہی
تو لطف سایۂ اشجار سے نہیں رکتا
ہمارا عشق رواں ہے رکاوٹوں میں ظفرؔ
یہ خواب ہے کسی دیوار سے نہیں رکتا

غزل
ہوائے وادئ دشوار سے نہیں رکتا
ظفر اقبال