ہوائے شوخ کی آخر فسوں کاری یہ کیسی ہے
اذیت دے کے ٹل جاتی ہے دل داری یہ کیسی ہے
برستے ہیں مسلسل اپنے سر آفات کے پتھر
بتا اے دل بلاؤں کی خریداری یہ کیسی ہے
اگی ہیں دھوپ کی فصلیں کہیں سایہ نہیں ملتا
شجرکاری کا دعویٰ تھا شجرکاری یہ کیسی ہے
کھڑی ہے اپنے دامن کو پسارے غیر کے آگے
مرے مولا پریشاں آج خود داری یہ کیسی ہے
کہیں خوشیوں کی کلیاں ہیں کہیں اشکوں کے بوٹے ہیں
حیات و موت کے مابین گل کاری یہ کیسی ہے
دریچوں سے شعاعیں جھانکتی ہیں مسکراتی ہیں
خبر تو لو پس دیوار بیداری یہ کیسی ہے
لرزتی ہے فقط اک لفظ کی ہلکی سی ٹھوکر سے
ولیؔ دل کے مکاں کی چار دیواری یہ کیسی ہے
غزل
ہوائے شوخ کی آخر فسوں کاری یہ کیسی ہے
ولی مدنی