ہوائے موسم گل سے لہو لہو تم تھے
کھلے تھے پھول مگر ان میں سرخ رو تم تھے
ذرا سی دیر کو موسم کا ذکر آیا تھا
پھر اس کے بعد تو موضوع گفتگو تم تھے
اور اب کہ جب صورت نہیں تلافی کی
میں تم سے کیسے کہوں میری آرزو تم تھے
کہانیوں میں تو یہ کام اژدہے کا تھا
مری جب آنکھ کھلی میرے چار سو تم تھے
غزل
ہوائے موسم گل سے لہو لہو تم تھے
عباس تابش