ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا
کہ پیرہن تو گیا تھا بدن بھی چاک ہوا
اب اس سے ترک تعلق کروں تو مر جاؤں
بدن سے روح کا اس درجہ اشتراک ہوا
یہی کہ سب کی کمانیں ہمیں پہ ٹوٹی ہیں
چلو حساب صف دوستاں تو پاک ہوا
وہ بے سبب یوں ہی روٹھا ہے لمحہ بھر کے لئے
یہ سانحہ نہ سہی پھر بھی کرب ناک ہوا
اسی کے قرب نے تقسیم کر دیا آخر
وہ جس کا ہجر مجھے وجہ انہماک ہوا
شدید وار نہ دشمن دلیر تھا محسنؔ
میں اپنی بے خبری سے مگر ہلاک ہوا
غزل
ہوائے ہجر میں جو کچھ تھا اب کے خاک ہوا
محسن نقوی