EN हिंदी
ہوائے فصل گل کے ساتھ برق شعلہؔ بار آئی | شیح شیری
hawa-e-fasl-e-gul ke sath barq-e-shoala-bar aai

غزل

ہوائے فصل گل کے ساتھ برق شعلہؔ بار آئی

شعلہ کراروی

;

ہوائے فصل گل کے ساتھ برق شعلہؔ بار آئی
نشیمن میں لگی ہے آگ گلشن میں بہار آئی

گلوں پر تازگی آئی نہ باد‌‌ عطر بار آئی
جہان رنگ و بو میں نام کو فصل بہار آئی

کھلا غنچہ نہ دل کا گرچہ گلشن میں بہار آئی
ہوائے موسم گل بھی نہ اس کو سازگار آئی

گلوں پر ایسی غفلت تھی نہ چونکے صحن‌ گلشن میں
جگانے کے لئے فریاد بلبل گو ہزار آئی

سبب اس کے سوا کچھ بھی نہیں آنسو بہانے کا
کہ شبنم بے ثباتیٔ جہاں پر اشک بار آئی

ستا کر شاد ہوتے ہیں یہ فطرت ہے حسینوں کی
جو رونے پر مرے ان کو ہنسی بے اختیار آئی

فضائے صحن گلشن بھی نہ تھی خالی کدورت سے
نسیم صبح بھی آلودۂ گرد و غبار آئی

نفس کی آمد و شد کا بھروسہ کچھ نہیں شعلہؔ
پیام موت لے کر خود حیات مستعار آئی