ہوا چمن کی بھلا ہم کو سازگار کہاں
بہار نام کو ہے اصل میں بہار کہاں
جو تم نہیں تھے تو اک لطف انتظار تو تھا
تم آ گئے ہو تو اب لطف انتظار کہاں
چمن سے دور بھی دیکھی ہے فصل گل ہم نے
مگر وہ سلسلۂ نغمۂ بہار کہاں
نمود صبح ہوئی اور اجڑ گئی محفل
مے شبانہ کہاں اب وہ میگسار کہاں
چمن یہ شہر نگاراں بنا تو ہے لیکن
مری بہار کو چھوڑ آئی ہے بہار کہاں
ہوئی ہیں ان سے اچٹتی سی کچھ ملاقاتیں
مگر یہ کیف بہ اندازۂ خمار کہاں
نہ سینہ چاک ہے کوئی نہ اب گریباں چاک
گیا نہ جانے وہ سرمایۂ بہار کہاں
بہ فیض عظمت عصیاں ملی ہے یہ توقیر
وگرنہ در خور رحمت گناہ گار کہاں
نہ وہ صحبت ماضی نہ اس کی یاد اے عرشؔ
جو کارواں ہی نہیں ہے تو پھر غبار کہاں
غزل
ہوا چمن کی بھلا ہم کو سازگار کہاں
عرش ملسیانی