ہوا چلی تو پسینہ رگوں میں بیٹھ گیا
نمی کا زہر شجر کی جڑوں میں بیٹھ گیا
اداس کیوں نہ ہوں اب تیرے قرب کی صبحیں
شب فراق کا ڈر سا دلوں میں بیٹھ گیا
ابھی فضاؤں میں برق صدا ہی کوندی تھی
زمانہ خوف کے مارے گھروں میں بیٹھ گیا
نہ کام آ سکی اعضا کی چار دیواری
مکاں بدن کا زمیں کی تہوں میں بیٹھ گیا
امید و بیم کے سائے ہیں جس طرف دیکھوں
میں چلتے چلتے یہ کن جنگلوں میں بیٹھ گیا
ہوا کا سامنا پتے غریب کیا کرتے
کھڑا درخت بھی تیز آندھیوں میں بیٹھ گیا
برس پڑیں مرے سر پر سیاہیاں صدیقؔ
سحر کا روپ نگر ظلمتوں میں بیٹھ گیا

غزل
ہوا چلی تو پسینہ رگوں میں بیٹھ گیا
صدیق افغانی