EN हिंदी
ہوا چلے گی مگر ستارا نہیں چلے گا | شیح شیری
hawa chalegi magar sitara nahin chalega

غزل

ہوا چلے گی مگر ستارا نہیں چلے گا

جاوید انور

;

ہوا چلے گی مگر ستارا نہیں چلے گا
سمندروں میں ترا اشارا نہیں چلے گا

یہی رہیں گے یہ در یہ گلیاں یہی رہیں گی
تمہی چلو گے کوئی نظارہ نہیں چلے گا

شب سفر ہے ہتھیلیوں پر بھنور اگیں گے
تمہارے ہمراہ اب کنارا نہیں چلے گا

سنو کہ اب ہم گلاب دیں گے گلاب لیں گے
محبتوں میں کوئی خسارہ نہیں چلے گا

بہار مقروض ہے گھروں اور مقبروں کی
گلوں پہ رستوں کا ہی اجارہ نہیں چلے گا