ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے
چراغوں میں نیا پن آ رہا ہے
جمال یار تیرے جھانکنے سے
کنویں سے پانی روشن آ رہا ہے
میں گلیوں میں نکلنا چاہتا ہوں
مرے رستے میں آنگن آ رہا ہے
مجھے شہتوت کی خواہش بہت تھی
مگر مجھ پر تو جامن آ رہا ہے
میاں میں اپنی جانب آ رہا ہوں
خبر کر دو کہ دشمن آ رہا ہے
مجھے خیرات بانٹی جا رہی ہے
مرے ہاتھوں میں برتن آ رہا ہے
گلے میں ہار آنا چاہیے تھا
گلے میں طوق گردن آ رہا ہے
غزل
ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے
عاطف کمال رانا