EN हिंदी
ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے | شیح شیری
hawa aai na indhan aa raha hai

غزل

ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے

عاطف کمال رانا

;

ہوا آئی نہ ایندھن آ رہا ہے
چراغوں میں نیا پن آ رہا ہے

جمال یار تیرے جھانکنے سے
کنویں سے پانی روشن آ رہا ہے

میں گلیوں میں نکلنا چاہتا ہوں
مرے رستے میں آنگن آ رہا ہے

مجھے شہتوت کی خواہش بہت تھی
مگر مجھ پر تو جامن آ رہا ہے

میاں میں اپنی جانب آ رہا ہوں
خبر کر دو کہ دشمن آ رہا ہے

مجھے خیرات بانٹی جا رہی ہے
مرے ہاتھوں میں برتن آ رہا ہے

گلے میں ہار آنا چاہیے تھا
گلے میں طوق گردن آ رہا ہے