EN हिंदी
حوصلے اور سوا ہو گئے پروانوں کے | شیح شیری
hausle aur siwa ho gae parwanon ke

غزل

حوصلے اور سوا ہو گئے پروانوں کے

کشفی لکھنؤی

;

حوصلے اور سوا ہو گئے پروانوں کے
شعلے ارمان بڑھا دیتے ہیں دیوانوں کے

یہی عالم ہے اگر لغزش مستانہ کا
ڈھیر لگ جائیں گے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کے

طور بدلا نہ اگر اہل چمن نے اپنا
نظر آئیں گے مناظر یہیں ویرانوں کے

آہ مظلوم اگر دل سے نکل جائے گی
خاک پر ڈھیر نظر آئیں گے ایوانوں کے

قصۂ سرمد و منصور نہ چھیڑ اے ہمدم
ورنہ جذبات بھڑک اٹھیں گے دیوانوں کے

آپ محفل میں نہ آتے تو بہت اچھا تھا
آج تو ہوش اڑے جاتے ہیں فرزانوں کے

دور حاضر کی کشاکش کا یہ عالم ہے کہ بس
حوصلے پست ہوئے جاتے ہیں انسانوں کے

کیا بگاڑے گی بھلا شورش طوفاں اس کا
جس نے رخ موڑ دیے بارہا طوفانوں کے

دوستو باتیں بناتے ہو سر ساحل کیا
آؤ رخ موڑ کے دیکھیں ذرا طوفانوں کے

اس سے امید کرم کیا کرے کوئی کشفیؔ
کام آتا ہو جو اپنوں کے نہ بیگانوں کے