حوصلے اپنے رہنما تو ہوئے
حادثے غم کا آسرا تو ہوئے
بے وفا ہی سہی زمانے میں
ہم کسی فن کی انتہا تو ہوئے
وادئ غم کے ہم کھنڈر ہی سہی
آنے والوں کا راستہ تو ہوئے
کچھ تو موجیں اٹھی سمندر سے
بے سبب ہی سہی خفا تو ہوئے
ان کو اپنا ہی غم سہی لیکن
وہ کسی غم میں مبتلا تو ہوئے
خود کو بیگانہ کر کے دنیا سے
چند چہروں سے آشنا تو ہوئے
خندۂ گل ہوئے کہ شعلۂ جاں
حال پہ میرے لب کشا تو ہوئے
پتھروں کے نگر میں جا کے نظرؔ
کم سے کم سنگ آشنا تو ہوئے
غزل
حوصلے اپنے رہنما تو ہوئے
جمیل نظر