ہٹا دو چہرے سے گر دوپٹہ تم اپنے اے لالہ فام آدھا
تو ہو یہ ثابت کہ نکلا ابر سیہ سے ماہ تمام آدھا
ہوا تو ہے تیرے ہجر میں دل ہمارا جل کر کباب ساقی
کسر اگر ہے تو اتنی ہی ہے کہ پختہ آدھا ہے خام آدھا
یہاں تو دل کو مرے جلایا وہاں جلائیں گے جسم میرا
یہ حشر پر کیوں اٹھا رکھا ہے حضور نے انتقام آدھا
ہماری الفت کا ذکر سن کر عدو نکالے بھی شق تو کیوں کر
کہ لفظ شق میں بھی تو یہ شق ہے کہ ہے یہ عاشق کا نام آدھا
یہ چرکے دے دے کے تو نے مجھ کو جو نیم جاں کر رکھا ہے ناحق
حلال کر ڈال اب تو ظالم ہوا ہے جینا حرام آدھا
یہ کیسی دریا دلی ہے ساقی ہوس بھی دل کی ہوئی نہ پوری
جو کی عنایت بھی تو ادھوری اگر دیا بھی تو جام آدھا
نظر جو پڑ جائے اس کے قامت پہ بس قیامت ہی آئے انجمؔ
زمیں میں گڑ جائے سرو خجلت سے اس کی وقت خرام آدھا
غزل
ہٹا دو چہرے سے گر دوپٹہ تم اپنے اے لالہ فام آدھا
مرزا آسمان جاہ انجم