EN हिंदी
ہستی و عدم میں نفس چند بشر کے | شیح شیری
hasti-o-adam mein nafas-e-chand bashar ke

غزل

ہستی و عدم میں نفس چند بشر کے

شاد لکھنوی

;

ہستی و عدم میں نفس چند بشر کے
جھونکے ہیں ہوا کے نہ ادھر کے نہ ادھر کے

جامے میں ستی کے جو ہوا شیخ سے ڈر کے
ہندو نے وہیں پھونک دیا آگ میں دھر کے

جوبن کو دکھاتا ہے وہ جس دم مرے دل کی
رہ جاتی ہے ہر چوٹ حبابوں سے ابھر کے

جو مر کے گیا قبر کی گلیوں میں ہوا گم
رستے ہیں عجب بھول بھلیاں ترے گھر کے

آنکھ اس کی کھلے یا نہ کھلے صبح شب وصل
اپنی تو سحر ہو گئی بجتے ہی گجر کے

کیا جیتے جی پہنچیں گے خضر خلد میں جا کر
بہرام سے طے گور کی منزل ہوئی مر کے

ہوش و خرد و تاب و تواں دور ہوں سارے
اک داغ جگر پر نہ مرے پاس سے سر کے

جیتے ہیں نہ مرتے ہیں پڑے جھول رہے ہیں
گہوارۂ جنباں ہیں ادھر کے نہ ادھر کے

کیا بال فشانی کریں اے شادؔ کہ ہم کو
چھوڑا بھی جو ظالم نے پر و بال کتر کے