ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
مذہب کا خدا اور ہے مطلب کا خدا اور
پھر ٹھہر گیا قافلۂ درد سنا ہے
شاید کوئی رستے میں مری طرح گرا اور
اک جرعۂ آخر کی کمی رہ گئی آخر
جتنی وہ پلاتے گئے آنکھوں نے کہا اور
منبر سے بہت فصل ہے میدان عمل کا
تقریر کے مرد اور ہیں مردان وغا اور
اللہ گلہ کر کے میں پچتایا ہوں کیا کیا
جب ختم ہوئی بات کہیں اس نے کہا اور
کیا زیر لب دوست ہے اظہار جسارت
حق ہو کہ وہ ناحق ہو ذرا لے تو بڑھا اور
دولت کا تو پہلے ہی گنہ گار تھا منعم
دولت کی محبت نے گنہ گار کیا اور
یہ وہم سا ہوتا ہے مجھے دیکھ کے ان کو
سیرت کا خدا اور ہے صورت کا خدا اور

غزل
ہستی کوئی ایسی بھی ہے انساں کے سوا اور
نجم آفندی