ہستی اک نقش انعکاسی ہے
یہ حقیقت نہیں قیاسی ہے
ذوق تشنہ ہے روح پیاسی ہے
سارا ماحول ہی سیاسی ہے
کھب گئی دل میں ہر ادا اس کی
کج ادائی بھی خوش ادا سی ہے
دل ہے افسردہ تو بہار کہاں
باغ میں ہر طرف اداسی ہے
ان کو پا کر قرار آئے گا
اہل دل یہ بھی خوش قیاسی ہے
سو حجابوں میں بے حجاب ہے حسن
سو لباسوں میں بے لباسی ہے
مدعا تک بیاں نہیں ہوتا
بد حواسی سی بد حواسی ہے
ان کو دیکھا نہیں فگارؔ مگر
ان کے جلووں سے روشناسی ہے
غزل
ہستی اک نقش انعکاسی ہے
فگار اناوی