ہستی ہے جدائی سے اس کی جب وصل ہوا تو کچھ بھی نہیں
دریا میں نہ تھا تو قطرہ تھا دریا میں ملا تو کچھ بھی نہیں
اک شمع جلی تو محفل میں ہر سمت اجالا پھیل گیا
قانون یہی ہے فطرت کا پروانہ جلا تو کچھ بھی نہیں
سیلاب میں تنکے رقصاں تھے موجوں سے سفینے لرزاں تھے
اک دریا تھا سو طوفاں تھے دریا نہ رہا تو کچھ بھی نہیں
اصلیت تھی یا دھوکہ تھا اک فتنۂ رنگیں برپا تھا
سو جلوے تھے اک پردہ تھا پردہ نہ رہا تو کچھ بھی نہیں
طوفاں بھی تھا آندھی بھی تھی باراں بھی تھا بجلی بھی تھی
آئی جو گھٹا تو سب کچھ تھا برسی جو گھٹا تو کچھ بھی نہیں
پھولوں سے چمن آباد بھی تھے دام اپنا لیے صیاد بھی تھے
سب کچھ تھا جمیلؔ اس گلشن میں بدلی جو ہوا تو کچھ بھی نہیں
غزل
ہستی ہے جدائی سے اس کی جب وصل ہوا تو کچھ بھی نہیں
جمیلؔ مظہری