حسرتوں میں اب یہ اک حسرت ہمارے دل میں ہے
اتنا کہہ دیجے کہ بے چارہ بڑی مشکل میں ہے
ایک موسیٰ تھے کہ ان کا ذکر ہر محفل میں ہے
اور اک میں ہوں کہ اب تک میرے دل کی دل میں ہے
آج کیوں حد سے سوا الجھن ہمارے دل میں ہے
کیا نصیب دشمناں وہ بھی کسی مشکل میں ہے
ہے کوئی ایسا جو ساقی سے کہے میرے لیے
یہ بھی اک اللہ کا بندہ تری محفل میں ہے
یا الٰہی خیر یوں ہمدردیاں ہوتی ہیں آج
جیسے میرے دل کا سارا درد انہیں کے دل میں ہے
دیکھنا یہ ہے ان آنکھوں میں سما جاتا ہے کون
یوں تو ہونے کو زمانہ بھر تری محفل میں ہے
دیکھیے کس کے مقدر میں لکھی ہے یہ بہار
آج تو اک ہار پھولوں کا کف قاتل میں ہے
دیکھیے تو اپنے وحشی کی تصور میں خوشی
گھر میں تنہا ہے مگر جیسے بھری محفل میں ہے
ہے محبت کوئی بیماری تو بیماری قبول
ہائے منظرؔ کس مزے کا درد اپنے دل میں ہے
غزل
حسرتوں میں اب یہ اک حسرت ہمارے دل میں ہے
منظر لکھنوی