حسرتو اب پھر وہی تقریب ہونا چاہیئے
پھر کسی دن بیٹھ کر فرصت سے رونا چاہیئے
جاگتے رہیے کہاں تک الجھنوں کے نام پر
وقت ہاتھ آئے تو گہری نیند سونا چاہیئے
کیا خبر کب قید بام و در سے اکتا جائے دل
بستیوں کے درمیاں صحرا بھی ہونا چاہیئے
گم رہی جن راستوں پر مجھ کو بہلاتی رہی
مجھ سے اب وہ راستے منسوب ہونا چاہیئے
جانے کیا سوچے زمانہ ان کے اشکوں پر شمیمؔ
ہاں نہ تم کو طنز کے نشتر چبھونا چاہیئے
غزل
حسرتو اب پھر وہی تقریب ہونا چاہیئے
مبارک شمیم